فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلًا
پس (اے پیگمبر) تم اس بات کی بالکل پروا نہ کرو کہ یہ لوگ تمہارا ستاھ دیتے ہیں یا نہیں) تم اللہ کی راہ میں جنگ کرو، کہ تم پر تمہاری ذات کے سوا اور کسی کی زمہ داری نہیں اور مومنوں کو بھی جنگ کی ترگیب دو۔ عجب نہیں کہہ بہت جلد اللہ منکرین حق کا زور اور تشدد روک دے اور اللہ کا زور سب سے زیادہ قوی اور سزا دینے میں وہ سب سے زیادہ سخت ہے
ف 6 اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب دی اور اس کے بعد منافقین کی سرگرمیوں کا ذکر کیا۔، اب اس آیت میں فرمایا کہ آپ (ﷺ) ان منافقین ساتھ ہونے یا نہ ہونے کی پرواہ نہ کریں آپ (ﷺ) کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ (ﷺ) خو دبھی جہاد کے لیے نکلیں اور دوسرے مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔ ف 7 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عَسَى ٰ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پس آیت میں وعدہ کیا جارہا ہے کہ عنقریب کفا رکا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔۔