وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
اور پھر وہ وقت یاد کرو جب (تم مصر سے نکلے تھے اور فرعون تمہارا تعاقب کر رہا تھا) ہم نے سمندر کا پانی اس طرح الگ الگ کردیا کہ تم بچ نکلے مگر فرعون کا گروہ غرق ہوگیا، اور تم (کنارے پر کھڑے) دیکھ رہے تھے
ف 3) بآلا خر فرعون کے مظالم برداشت کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) ایک رات بنی اسرائیل کو مصر سے روانہ ہوگئے اور راستہ بھو لنے کی وجہ سے صبح کے قریب مصر سے مشرق کی طرف بحر قلزم کے شمالی تنگنائے پر پہنچ گئے۔ اب دائیں بائیں پہاڑ یاں تھیں اور پیچھے سے فرعون کا لشکر تعاقب میں تھا اللہ تعالیٰ کے حکم سے سمندر کا پانی سمٹ کر دونوں جانب پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور درمیان میں راستہ بن گیا۔ اسرائیلی سمندر پار کر گئے ان کے تعاقب میں فوعونی بھی سمندر میں داخل ہوگئے اتنے میں سمندر کا پانی حسب معمول آگیا اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق ہوگیا مفصل دیکھئے ( سورۃ شعرا رکوع :4) یہ واقعہ عاشورہ کے دن پیش آیا صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن کا روزہ کھتے ہیں۔ دریافت کرنے پر انہوں نے جواب دیا کہ ایک مبارک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن کا روزہ کھا تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موسیٰ سے ہمیں خصیت حاصل ہے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نے خود بھی روزہ کھا اور صحابہ کو بھی حکم دیا، (ابن کثیر )