وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔
ف 5 اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے (رازی) یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ جمیع امور میں اللہ تعالیٰ کی توفیق واعانت سے ان کی اطاعت کی جائے معلوم ہوا کہ ہر رسول صاحب شریعت ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، رازی ) ف 6 جب ان لوگوں نے آنحضرت (ﷺ) کے فیصلے سے انحراف کر کے معصیت کا ارتکاب کیا ہے تو ان کو چاہئے تھا کہ بجائے حیلہ بازیوں اور سخن سازیوں کے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول اللہ (ﷺ) سے بھی اپنے لیے مغفرت کی دعا کر واتے اگر ایسا کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرماتا اور ان پر رحم کرتا (تنبیہ) اس جگہ حافظ ابن کثیر نے ایک بدوی کی حکایت نقل کردی ہے جس نے آنحضرت (ﷺ) کے روضئہ مبارک کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کہا کہ یا حضرت (ﷺ) میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ (ﷺ) کو شفیع بناتا ہوں اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا۔ خواب میں آنحضرت (ﷺ)نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس بدوی کو بخش دیا گیا لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے درج کردی ہے یہ آیت کی تفسیر یا حدیث نہیں ہے الصارم المنکی (ص 238) میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (ﷺ) کی حیات مبارکہ میں آپ(ﷺ) سے دعائے مغفرت کرائی جاسکتی تھی مگر آپ (ﷺ) کی وفات کے بعد قبر مبارک سے استشفاع پر استدلال کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (ترجمان نواب)