أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا
تو کیا ان کو (کوئنات کی) بادشاہی کا کچھ حصہ ملا ہوا ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیتے۔ (٣٨)
ف 7 اوپر کی آیت میں یہود کو جہالت بیان کی کہ وہ بتوں کی پوجا کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ترجیح دیتے ہیں اس آیت میں ان کے بخل اور حسد کو بیان فرمایا ہے (کبیر) بخل تو یہ ہے کہ نعمت اللہ تعالیٰ نے کسی کودی ہو دوسروں سے اسے روک لینا۔ اور حسد یہ ہے کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے دوسروں کودی ہے اس پر جلے بھنے اور آرزو کرے کہ اس سے چھین جائے اور مجھے مل جائے پس حسد اور بخل دونوں میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ دوسروں سے نعمت کو رکنا اور یہ گوارا نہ کرنا کہ اپنی ذات کے سوا دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے (کبیر، قرطبی) یہود میں یہ دونوں صفتیں اتم اور اکمل طوپر پائی جاتی تیں۔ قرآن نے یہ بتایا کہ یہ مسلمان پر حسد کرتے ہیں اور ان کے بخل کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ملک وسلطنت میں ان کو اختیار ہوتا تو کسی کو تل برابر بھی کچھ نہ دتیے نقیر دراصل اس نقطہ کر کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشست پر ہوتا ہے اور یہ قلت ضرب المثل ہے۔