يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے سمجھنے نہ لگو۔ (٣٢) اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کرلو، (نماز جائز نہیں) الا یہ کہ تم مسافر ہو (اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو، پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا (اس مٹی سے) مسح کرلو۔ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے۔
ف 1 شراب کی مذمت اور قباحت کے سلسلے میں سب سے پہلے سورت بقرۃ کی آیت 219 نازل ہوئی جس میں شراب کو مضرت رساں قرار دیا ہے۔ اس پر بہت سے مسلمانوں نے شراب چھوڑدی۔ تاہم بعض لوگ بدستور پیتے رہے۔ اس اثنا میں ایک صحابی نشے کی حالت میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو سورت کافرون میں لاعبد کی بجائے اعبد پڑھا جس آیت کے معنی کچھ کے کچھ ہوگئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور لوگوں نے نماز کے اوقات شراب تر کردی تآنکہ سورت مائدہ کی آیت 90۔91 نازل ہوئی جس سے شراب قطعی طور پر حرام کردی گئی (ابن کثیر) بعض علما نے یہاں وانتم سکا دی (جمع سکران سے نیند کا غلبہ مراد لیا ہے اور اس کے مناسب صحیح بخاری کی وہ حدیث ذکر کردی جس میں ہے کہ رسول ﷺ نے نیند کی حالت میں نماز سے منع فرمایا کہ معلو نہیں کیا پڑھے اور کیا پڑھے مگر صیح یہ ہے کہ اس سے نشہ شراب مراد ہے۔ یہی قول جمہور صحابہ (رض) و تابعین کا ہے اور تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت شراب نوشی کے بارے میں نازل ہوئی ہے (کبیر۔ ابن کثیر) ف 2 مگر راہ چلتے ہوئے یعنی سفر میں کہ اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ (موضح) لیکن اس تفسیر کی بنا پر سفر کے ذکر میں تکرار لازم آتی ہے۔ بنا بریں اکثر سلف (رح) نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جنا بت کی حالت میں الصلوٰۃ یعنی مواضح صلوٰۃ (مسجدوں) میں نہ جا و ہاں اگر امسجد سے گزرنا پڑے تو اضطراری صورت میں گزر سکتے ہو (ٹھہر نہیں سکتے) ابن کثیر نے اس کو راجح قرر دیا ہے پس یہاں مضاف مخذوف ہے ای لاتھتر بو اموا ضع الصلوٰۃ (جامع البیان ،۔ ابن جریر) اور یہی جمہور علما کا مسلک ہے کہ جنبی یا حا ئضہ کے لیے مردر جائز ہے ٹھہرنا جائز نہیں ہے جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں جنبی اور حائضہ عورت کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا۔ ائمہ ثلاثہ کا یہی مسلکے مگر امام احمد جنبل وضو کے بعد جنبی کے لیے مسجد میں ٹھہرنا جائز قرار دیتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام کا یہی عمل تھا (ابن کثیر بحوالہ سنن سعید منصور) مستند روایتوں میں ہے کہ بعض صحابہ (رض) کے گھر مسجدکی طرف اس طرح کھلتے تھے کہ بغیر مسجد سے گزرے وہ مسجد سے باہر نہیں آسکتے تھے اور گھروں میں غسل کے لیے پانی نہیں ہوتا تھا۔ جنا بت کی حالت میں مرور ان پر شاق گزرتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) ف 3 سفر سے مراد مطلق ہے، اکثر علما کے نزدیک مسافت قعر شرط میں اور جائے ضرور سے لوٹے کے تحت ہر وہ چیز آجاتی ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے عورتوں کی چھونے سے مراد راجح مسلک کو بنا پر جماع ہے ورنہ مطلق چھونا نا قض وضو نہیں ہے چنانچہ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں گھر میں لیٹی ہوتی ّآنحضرت ﷺ نفلی نماز پڑتھے تو سجدہ کی وقت اپنے ہاتھوں سے میرے سامنے سے ہٹادیتے (صیحین) فعیدا فیبا سے مراد پاک مٹی ہے مطلق جنس ارض نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے وجعلت تربتھا لنا طھور کہ زمین کی مٹی خاص طور پر ہمارے سے سحہو بنائی گئی (ابن کثیر) ف 4 تیمم کے سلسلہ میں بعض احادیث میں ہے کہ مٹی پر دو مرتبہ ہاتھ مارے پہلی مرتبہ اس سے چہرے کا مسح کرے اور دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں کا مگر ان دو ضرب والی روایات میں ضعف پایا جاتا ہے صحیح ترین روایت حضرت عمار (رض) کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا التیمم ضربتہ للوجہ والکفین کہ تیمم کے لیے صرف ایک مرتبہ مٹی پر ہاتھ مارا جائے اور پھر پھر چہرے اور کلائی تک ہاتھوں پر مسح کرلیا جائے۔ امام مالک (رح) امام احمد (رح) اور محدثین اس مسلک کے قائل ہیں