وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
اور ہم نے ہر اس مال کے کچھ وارث مقرر کیے ہیں جو والدین اور قریب ترین رشتہ دار چھوڑ کرجائیں۔ اور جن لوگوں سے تم نہ کوئی عہد باندھا ہوا ان کو ان کا حصہ دو۔ (٢٨) بیشک اللہ ہر چیز کا گواہ ہے۔
ف 2 جاہلیت میں دوشخص آپس میں عقد مولاۃ باندھ لیتے جس کی روسے ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے۔ ابتدا ہجرت میں ّآنحضرت ﷺ نے بھی مہاجرین (رض) اور انصار (رض) کے درمیان مواخاۃ کارشتہ قائم کیا تھا آیت میں والذین عقدت الخ سے اسی عہد کی طرف اشارہ ہے۔ اس عہد کی روسے وراثت کا حکم کے بعد میں سورت انفال کی آیت وَأُولُو الأرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِ (٧٥) سے منسوخ ہوگیا۔ آنحضرت ﷺ نے بھی اعلان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دیدیا ہے اب آئندہ حلف سے وارث نہیں ہو سکتے آیت میں موالی سے مراد عصبہ میں اور عصہ کی وراثت لا قرب فالا قرب کا اصول مقرر ہے یعنی اول سب سے زیادہ قریبن ہوگا۔ اور اس پر علما کا اجماع بھی ہوچکا ہے لہذا صلبی لڑکے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں ہوسکتا ( دیکھئے فتح الباری ج 2 ص 294، انصار دبلی ٰ لمحلیٰ ج 9 ص 271، احکام جصاص ج 2 ص 224)