سورة المنافقون - آیت 8

يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مدینہ واپس پہنچ جائیں تو جوعزت والا ہے وہ ذلیل کو باہر نکال کرے گا حالانکہ عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن یہ غافل جانتے نہیں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1 یہ بات بھی عبداللہ بن ابی نے کہی تھی لیکن چونکہ اس نے اس بات کے ذریعہ تمام منافقین کی ترجمانی کی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام منافقین کی بات کے طور پر ذکر فرمایا عزت والے سے کم بخت نے اپنے آپ کو اور ذلت والے سے نبی) ﷺ( اور آپ کے ساتھیوں کو مراد لیا تھا۔ صحیحین میں ہے کہ مسلمان آنحضرت)ﷺ( کے ساتھ غزوہ بنی المصطلق میں تھے۔ ایک مہاجر اور ایک انصاری آ پس میں لڑ پڑے۔ دونوں نے اپنی حمایت کے لئے اپنے اپنے لوگوں کو پکار آنحضرت)ﷺ( کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اسے جاہلیت کی پکار قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ عبداللہ بن ابی کو پتا چلا تو اسے گویا موقع ہاتھ آگیا۔ کہنے لگا ” اچھا اب ان لوگوں کو یہ جرأت ہوگئی ہے۔ اور انصار کو مہاجرین کے خلاف خوب اکسایا اور بدبخت کہنے لگا ان قریشی کنگالوں کی مثال ایسی ہے کہ اپنے کتے کو پالو تاکہ تمھیں کھانے کو دوڑے۔ آج تم ان سے ہاتھ کھینچ لو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں وغیرہ پھر اس نے قسم کھا کر کہا :” مدینہ پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ بے عزت کو نکال باہر کریگا۔“ آنحضرت)ﷺ( کو اس کی یہ بات پہنچ گئی۔ حضرت عمر (رض)نے عرض کی۔ اے اللہ کے رسول!)ﷺ( اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔ آپ) ﷺ(نے فرمایا :” رہنے دو ! کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔“ (ابن کثیر، شوکانی)