يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
اے ایمان والو تم اللہ کے مددگار بنو جس طرح عیسیٰ بن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا گھا کون ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت دینے میں میرا مددگار، حواریوں نے جواب دیا تھا ہم اللہ کے مددگار ہیں، پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا، پھر جو لوگ ایمان لائے تھے ان کی ہم نے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی، سو وہ غالب ہو کررہے
ف 6 حواریوں سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کے وہ ساتھی جو ان پر سب سے پہلے ایمان لائے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھئے (آل عمران آیت 52) ف 7 شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)کے بعد ان کے یاروں نے بڑی محبتیں کیں تب ان کا دین نشر ہوا۔ ہمارے رسول )ﷺ(کے پیچھے بھی خلیفوں نے اس سے زیادہ کیا۔ ” قتادہ“ کہتے ہیں : بحمد اللہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کیا جب کہ (مدینہ سے ایک حج کے موقع پر آنحضرتﷺ کے پاس سترآدمی آئے اور انہوں نے عقبہ کے پاس آپ)ﷺ( کے ہاتھ پر بیعت کی پھر آپ)ﷺ( کو اپنے ہاں پناہ دی اور آپ کے دین کی مدد کی۔ آنحضرت) ﷺ(نے عقبہ کی رات انصار سے فرمایا تھا :” تم اپنے لوگوں میں سے بارہ آدمی منتخب کرو جو اپنے قبیلہ کا ذمہ لیں جیسے حواریوں نے عیسیٰ بن مریم(علیہ السلام) کا ذمہ لیا تھا۔ (شوکانی) ف 8 پھر جب حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آسمان پر تشریف لے گئے تو ایمان لانے والوں (نصاریٰ) میں بھی اختلاف ہوگیا۔ کوئی آپ کو خدا کا بیٹا کہنے لگا اور کوئی توحید پر قائم رہا گویا اصل ایمان لانے والے یہی موحد تھے۔ ف 1 یعنی جو صحیح عقیدہ پر برقرار رہے اور پھر آنحضرت) ﷺ(پر ایمان لے آئے ۔ہم نے دلیل و برہان کے اعتبار سے بھی اور قوت و سلطنت کے اعتبار سے بھی ان کی ایمان نہ لانے والے گروہوں کے مقابلے میں مدد فرمائی وہ غالب آگئے اور قیامت تک غالب رہیں گے۔ آخری مکمل غلبہ اس وقت ہوگا جب حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے اور مسلمان آپ کے ساتھ مل کر دجال کو قتل کریں گے۔ (کذافی جامع لبیان)