وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل، میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف بھیجا ہوا آیا ہوں (میں کوئی نئی شریعت نہیں لایا) بلکہ میرا کام صرف یہی ہے کہ کتاب تورات کی، جو مجھ سے پہلے آچکی ہے تصدیق کرتا ہوں اور ایک آنے والے رسول کی خوشخبری دیتا ہوں (٢) جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمد ہوگا مگر وہ جب ان کے پاس صریح دلائل لے کرآیا تو انہوں نے کہا یہ تو کھلاجادو ہے
ف 10 یعنی میں اس کے احکام و تعلیمات پر یقین رکھتا ہوں اور میں اس کی دی ہوئی خبر کا مصداق ہوں۔ (ابن کثیر) ف 11 ” احمد“ جس کے لفظی معنی ” بہت تعریف کیا ہوا“ ہیں ہمارے رسول کا نام تھا احادیث میں آنحضرت ) ﷺ( کے متعدد نام مذکور ہیں۔ صحیح بخاری میں جبیربن مطعم(رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت) ﷺ( نے فرمایا : میرے پانچ نام ہیں یعنی جو پہلی امتوں میں بھی مشہور ہے۔ ان میں پہلا محمد اور دوسرا ” احمد“ ہے اور یہ دونوں نام قرآن میں مذکور ہیں۔ زہری فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رئوف رحیم کا لقب دیا ہے۔ موجودہ اناجیل میں اس نام کا مذکورہ نہ ہونا اس کی نفی کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ ان میں تحریف ہوچکی ہے اور اس کی بڑی دلیل ہے کہ اگر قرآن کا یہ بیان غلط ہوتا تو نزول قرآن کے زمانہ کے عیسائی ضرور اس کی تردید کرتے۔ پھر اس تحریف کے باوجود اناجیل میں آنحضرت)ﷺ( کی صداقت کے دلائل موجود ہیں بلکہ انجیل یو حنا میں تو ” فارقلیط“ کے آنے کی بشارت دی گی ہے جو یونانی لفظ ’’پارکلوطوس‘‘ معرب ہے اور یہ لفظ ” احمد“ کا مترادف ہے اور پھر مولاناوحید الزامان کی روایت کے بموجب روما میں انجیل کے بعض قلمی نسخوں میں ” احمد“ کا لفظ اب تک موجود ہے۔ چنانچہ مولانا مرحوم لکھتے ہیں : الحمد اللہ اب وہ انجیل مل گئی یعنی انجیل بربناس حواری کہ اس میں صراحتاً ہمارے پیغمبر) ﷺ( کا نام مذکور ہے۔ (وحیدی) یہ انجیل اس وقت بھی لندن کے ایک کتب خانے میں موجود ہے۔