سورة المجادلة - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو، جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجالس کو کشادہ کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی کردے گا، اور جب تم سے کہا جائے گا کہ اٹھ کر چلے جاؤ تو چلے جایا کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن لوگوں نے علم حاصل کیا سو اللہ تعالیٰ ان کے مدارج کو ترقی دیتا ہے اور ارتفاع بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے (٥)۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 اس آیت میں مسلمانوں کو آداب مجلس کی تعلیم ہے کہ ذرا کھل کر بیٹھا کرو تاکہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو تکلیف نہ ہو، البتہ اگر بالکل جگہ نہ ہو تو دوسری بات ہے احادیث میں آداب مجلس کی تفصیل دیکھ لی جائے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم ہر اس مجلس کے لئے ہے جس میں مسلمان کسی نیک کام کے لئے جمع ہوں۔ (شوکانی) ف 3 یعنی جب تمہیں کسی نیک کام کے لئے بلایا جائے تو سستی نہ کرو بلکہ چلنے کو فوراً تیار ہوجائو۔ (شوکانی) ف 4 یعنی سچا ایمان اور صحیح علم آدمی کو ادب و تہذیب سیکھاتا ہے اور تواضح سے انسان کے مراتب بلند ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے ہے کہ من تواضح للہ رفعہ اللہ یہ کام اکھڑا اور متکبر قسم کے جاہلوں کا ہے کہ وہ صرف اتنی سی بات پر بگڑ جاتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے لئے کھلے ہو کر بیٹھنے یا مجلس سے اٹھ جانے کے لئے کہا گیا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” اتنی حرکت کرنے (یعنی دوسرے کو جگہ دینے اور دائرہ مجلس کو وسیع کرنے) میں غرور نہ کریں۔ خوئے نیک پر اللہ مہربان ہے اور بدخو سے اللہ بیزار۔ (موضح)