وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی سے نکاح کرنا چاہتے ہو اور ان میں سے ایک کو ڈھیر سارا مہر دے چکے ہو، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ کیا تم بہتان لگا کر اور کھلا گناہ کر کے (مہر) والس لو گے ؟ (١٧)
ف 1 یہ عورتوں کے متعلق چوتھا حکم ہے جب پہلی آیت میں بیان فرمایا کہ اگر سو ٔعشرت عورت کی جانب سے ہو تو مہر واپس لینے کے لیے اسے تنگ کرنا جائز ہے۔ یہاں بتایا کہ جب زیادتی شوہر کی جانب سے ہو تو پھر عورت سےفدیہ طلاق لینا ممنوع اور حرام ہے۔ (کبیر) یعنی بلا وجہ تنگ کر کے ان سے مہر واپس لو گے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بہتان باندھ کر واپس لے رہا ہے اور اس صورت میں تم ان پر دو ہر اظلم کروگے بلا وجہ تنگ کرنا اور مہر واپس لینا۔ اس لیے اسے إِثْمًا مُبِينًارمایا (کبیر) آپ سے ثابت ہوا کہ جماع کے بعد دیا ہوا مہر واپس نہیں ہوسکتا چنانچہ مذکور ہے کہ آنحضرت (ﷺ) کے زمانہ میں ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کرلیا۔ جب اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے اس پر وہ نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضرت (ﷺ) نے ان کے درمیان تفریق کرادی اور مہر واپس لینے سے منع فرمادیا۔ (ابوداود) اس آیت سے دوسرا مسئلہ یہ بھی ثابت ہوا کہ زیادہ مہر کی کوئی حدمعین نہیں ہے خاوند اپنی حیثیت کے مطابق جتنا مہر دینا چاہے دے سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ خطبہ دیا کہ لوگوں زیادہ غلو کے ساتھ مہر نہ باندھا کرو۔ خطبہ کے بعد ایک بڑھیا نے یہی آیت پیش کی۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے کہا یا اللہ ! مجھے معاف فرمادے عمر (رض) سے تو ہر شخص زیادہ فقیہ ہے۔ (ابن کثیر )