وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اور ناسمجھ (یتیموں) کو اپنے وہ مال حوالے نہ کرو جن کو اللہ نے تمہارے لیے زندگی کا سرمایہ بنایا ہے، ہاں ان کو ان میں سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے مناسب انداز میں بات کرلو۔ (٥)
ف 3 یہاں بیوقوفوں سے مراد وه لوگ هیں جو مال كے انتظام کی صلا حیت نہ رکھتے ہوں۔ اس میں چھو ٹے بچے اور ناتجر بہ کار بیوی بھی آجاتی ہے اور نادان یتیم بھی۔ یعنی اگر تجربہ کار اور کم عقل ہوں تو وصی یا متولی کو چاہیے کہ یتیم کے مال سے اس کے کھا نے پینے اور لباس کا انتظام کرتا رہے مگر وہ مال اس کے سپرد نہ کرے۔ اس آیت سے علما نے سفیہ (کم عقل) پر’’ حجر‘‘ کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے تصرف پر پابندی لگا سکتا ہے (ابن کثیر،قرطبی )