سورة النسآء - آیت 3

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں (٣) دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے، (٤) ہاں ! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلا نہیں ہوگے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 9 آیت کی شان نزول کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) عروہ بن زبیر (رض) کے ایک استفسار کے جواب میں فرماتی ہیں کہ بعض یتیم لڑکیاں لوگوں کے دامن پر ورش میں ہوتیں وہ ان لڑکیوں کے مال دار اور قبول صورت ہونے کی وجہ سے ان کے مال وجمال پر گرویدہ ہوجاتے اور ان سے نکاح کرلیتے لیکن ان کو اپنے گھر کی لڑکیاں سمجھ کر پرائے گھر کی لڑکیوں جیسا نہ تو مہر دیتے اروانہ ان کے دوسرے حقوق ہی ویسے ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا کہ اگر یتیم لڑکیوں سے تم ان کے مہر اور نفقات میں انصاف نہیں کرسکتے تو ان کے علاوہ تمہیں دوسری عورتوں س نکاح کی اجازت ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) اس آیت حضرت ابن عباس (رض) اور جمہور علمائے نے لکھا ہے کہ ایک شخص کے لیے بیک وقت چار سے زائد عورتیں اپنے حرم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ سنت سے صراحت کے ساتھ یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں وھذالذی قالہ الشافعی مجع علیہ من العلما غیلان بن سلمتہ الظقفی اور بعض دیگر صحابہ (رض) کے متعلق مذکور ہے ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے حرم میں چار عورتیں تھیں۔ آپ ﷺ نے ہر ایک فرمایا ختر منھن اربعا کہ ان میں سے صرف چار کا انتخاب کرلو اور باقی کو طلاق دیدو۔ امام قرطبی لکھتے ہیں رافضی اور بعض دیگر علمائے اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ چار سے زائد بھی جائز ہیں۔ مگر یہ لغت اور سنت سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ ان کے مقابلہ میں اسلام کے تعداد ازواج کے مسئلہ پر معاندین نے اعتراضات بھی کئے ہیں جن کے علما نے مسکت جوابات دیئے ہیں ف 10 یعنی قرآن نے انصاف نہ کرسکنے کے اندیشہ کی بنا پر ایک سے زائد بیو یوں شادی نہ کرنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا ہے کہ ظلم سے بچنے کی یہ قریب ترین صورت ہے، بعض نے ان لا تعو لوا کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ تمہارے عیال زیدہ نہ ہوجائیں اور تم فقیر نہ ہوجا و مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ ابن کثیر )