فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
چنانچہ ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کی (اور کہا) کہ : میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ لہذا جن لوگوں نے ہجرت کی، اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا، اور میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں، اور جنہوں نے (دین کی خاطر) لڑائی لڑی اور قتل ہوئے، میں ان سب کی برائیوں کا ضرور کفارہ کردوں گا، اور انہیں ضرور بالضرور ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے انعام ہوگا، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بہترین انعام ہے۔
ف 2 یہاں قرآن نے استجابتِ دعا کو’’ فا سببیہ‘‘ کے ساتھ بیان فرمایا ہے یعنی اوصاف مذکورہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا پھر ان کی دعا کی قبولیت کی صورت اور کیفیت کا بھی ذکر فرمادیا ہے کہ ذات باری تعالیٰ کسی عامل کے عمل کو ضائع نہیں ہونے دے گی یعنی ہر عامل کو اس کے عمل کی جز اور ثواب مل کر رہے گا اور یہ دعا بھی من جملہ نیک اعمال کے ہے لہذا اس پر بھی جزامترتب ہوگی اور جملہİأَنِّي لَآ أُضِيعُ عَمَلَ عَٰمِلٖ مِّنكُمĬ میں تنبیہ فرمائی ہے کہ اخروی نجات اور حسن ثواب کے ساتھ فوزو فلاح کامدار عمل میں احسان واخلاص پر ہے نسیبی شرف یا مرد ہونے کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ اخروی نجات وعند اللہ درجات حاصل کرنے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ عورت یہ خیال نہ کرے کہ مرد کو اجتماعی سیادت حاصل ہے لہذا اس کو نیک اعمال کا بدلہ بھی عورت سے زیادہ ملے گا۔ یہ نہیں ہے بلکہ جب یہ دونوں انسانیت میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں تو مکافات عمل میں بھی ایک دوسرے پر فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی۔ قرآن نےİمِّن ذَكَرٍ أَوۡ أُنثَىٰۖ بَعۡضُكُم مِّنۢ بَعۡضٖĬ فرماکر عورت کے مقام کو مرد کے برابر کردیا ہے اور آنحضرت (ﷺ) نے یہ فرما کر(النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ) کہ طبا ئع و اخلاق میں عورتیں مردوں کے برابر ہیں) عورت کی حیثیت کو بلند اور ارفع بنا دیا ہے۔ قبل ازاسلام عورت کوایک بہیمیہ سے زیادہ احیثیت حاصل نہیں تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ صرف ایک مرد کی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے اور بعض لوگ تو عورت میں روح کے ہی قائل نہ تھے اور بعض مذاہب مرد کو محض مردہو نے کی وجہ سے عورت پر فوقیت دیتے تھے۔ قرآن نے بَعۡضُكُم مِّنۢ بَعۡضٖفرماکر ان سب نظریات کی تر ید فرمادی تاہم مرد و عورت کی جدا گانہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے فطر تا ان کی صلاحتیوں میں بھی اختلاف ہے۔ اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں نہ مر دعورت بن سکتا ہے اور نہ عورت مرد کی جگہ لے سکتی ہے۔ (المنار) سلسلہ بحث کے لیے دیکھئے (سورت النسا آیت 34) ف 3 یعنی جنہوں نے آنحضرت (ﷺ) کی خدمت کے لیے اپنی خوشی سے ہجرت کی اپنے وطن اور مال ومنال کو خیر باد کہکر مرکز اسلامی میں پہنچ گئے اور وہ لوگ جن پر کفار نے ظلم وستم ڈھائے۔ انہیں سخت اذیتیں پہنچاکر گھر بار چھوڑ نے پر مجبور کردیا۔ انہیں کسی طرح چین سے نہ بیٹھنے دیا اور انہیں محض اس لیے تکا لیف کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے دین اسلام کی راہ اختیار کی جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا۔İ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ Ĭ( سورت الممتحنہ : ١) یعنی یہ کافر پیغمبر (ﷺ) اور تمہیں گھروں سے محض اس جرم کی باداش میں نکا لتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔ نیز سورت البروج میں فرمایا : İ وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ Ĭ کہ ان مومنوں کی یہی بات بری لگتی ہے کہ وہ خدا پر ایمان لے آئے ہیں جو غالب اور قابل ستائش ہے وفی ہذا آیات کثیر ۃ (ابن کثیر، کبیر )