لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔
ف 2 یہ کہ جو کام انہوں نے کئے ہیں ان پر اتر اتے چلے جاتے ہیں اور جو کام انہوں نے نہیں کئے ہیں ان کے متعلق بھی چاهتے ہیں کہ انہیں انکے کار ناموں میں شمار کیا جائے ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ خیال نہ کرو كه وہ اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے چھوٹ جائیں گے یہ آیت دراصل یہود اور ان کے منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے (ابن جریر)چنانچہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں آنحضرت (ﷺ) نے یہود سے کوئی بات دریافت کی۔ انہوں نے اس کاغلط جواب دیا پھر خوش ہوئے کہ ہم نے آنحضرت (ﷺ) کو مطمئن كردیا اب انہیں ہماری تعریف کرنی چاہیے (بخاری مسلم) حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اس طرح کہ جب آنحضرت (ﷺ) جنگ کے لیے نکلتے تو وہ مدینه میں بیٹھے رہتےاور اس پر خوش ہوتے پھر جب آنحضرت(ﷺ)واپس تشریف لاتے تو آپ (ﷺ) کے سامنے جھوٹی قسمیں کھا کھا کر عذرپیش کرتے اور چاہتے کہ ان کی تعریف ہو۔ (بخاری) مگر یہ حکم اہل کتاب اور سب مسلمانوں کے لیے ہے جو بھی خوشا مد پسند ہوگا اوراس قسم کا ذہن رکھے گا اس کے لیے وہ وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر )