الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا : یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے ( مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ : ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (٥٩)
ف 2 یہ آیت بھی وقعہ حمرٔا الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابو سفیان کو۔ جو اس وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا۔ مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلہ کے ذریعہ آنحضرت (ﷺ) کو یہ چیلنج بھیجا کہ میں نے بڑا لاو لشکر جمع کرلیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں۔ یہ سن کر مسلمانوں میں خوف یا کمزری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آنحضرت (ﷺ) اور صحا بہ (رض) نے فرمایا (حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيل) (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت غزوہ’’ بدر الصغری ٰ‘‘ کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس کا پس منظر یہ ہے کہ جنگ احد کے خاتمہ پر ابو سفیان نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر میں لڑائی ہوگی۔ آنحضرت (ﷺ) نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ منظور کرلو اور کہدو’’ ان شا الله تعالیٰ۔ جب اگلا سال آیا۔ ابو سفیان مکہ سے فوج لے کر نکلا جب’’ مرالظہر ان‘‘ میں پہنچا تو مرعوب ہوگیا۔ قحط سالی کا عذر کر کے مکہ کو لوٹنا چاہا اتفاق سے ابو نعیم بن مسعود الا شجعی سے ملا قات ہوگئی جو عمرہ کر کے واپس جا رہا تھا۔ اس کو کچھ انٹوں کا لالچ دے کر کہا کہ مدینہ پہنچ کر ہماری طرف سے خبر مشہور کردینا کہ وہ بہت بڑی جمعیت لے کر آرہے ہیں تاکہ مسلمان خوف زدہ ہوجائیں اور نکلنے کی جرات نہ کریں۔ چنانچہ اس نے مدینہ پہنچ کر اسی قسم کی افواہیں پھیلادیں کچھ مسلما ن مرعوب بھی ہوئے مگر آنحضرت (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا۔ میں ضرور جاوں گا خواہ مجھے اکیلے کو ہی جانا پڑے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور انہوں نے کہا’’ اللہ ہی ہم کا کافی ہے‘‘ آخر مسلمان وہاں پہنچے۔ بدرالصغریٰ (مأبنی کنانۃ) میں بڑابازار لگتا تھا۔ تین روز رہ کر تجارت کے ذریعے خوب نفع کمایا اور صحیح سلامت مدینہ لوٹ آئے مشرکین بھی ’’مر الظہران‘‘ سے لوٹ گئے تھے انہوں نے اپنی اس مہم کا نام جیش السو یق رکھا۔ (رازی۔ ابن کثیر )