قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
یہ جو عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو ان سے کہہ دو کہ تم ابھی تک ایمان نہیں لائے (کیونکہ وہ دل کے اعتقاد کامل کا نام ہے جو تمہیں نصیب نہیں) ہاں البتہ یوں کہو کہ ہم نے اس دین کو مان لیا۔ اور اگر تم الہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کرو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا بیشک اللہ بڑا بخشنے والا بہت مہربان ہے۔
ف 12 ابن عباس(رض) سے روایت ہے کہ بنو اسد ایک مرتبہ قحط سالی کے زمانہ میں مدینہ آئے اور انہوں نے مالی امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار آنحضرتﷺ سے یہی کہا ہم جنگ کئے بغیر مسلمان ہوئے ہیں اور ہم نے فلاں قبیلے کی طرح جنگ نہیں کی تو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی) ف 1 اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور ایمان میں فرق ہے۔ ایمان کے لئے قلبی ایقان بھی شرط ہے مگر اسلام کا لفظ ظاہری اطاعت پربھی بولا جاتا ہے۔ گویا ایمان کو اسلام کی بہ نست خصوصیت حاصل ہے اور یہی بات اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جس میں جبریل نے آنحضرتﷺ سے پہلے اسلام کے بارے میں سوال کیا اور پھر ایمان کے بارے میں صحیحین میں حضرت سعد(رض) سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں آنحضرت ﷺنے بعض لوگوں کو دیا تو ایک آدمی کو کچھ نہ دیا۔ حضرت سعد(رض) کہتے ہیں میں نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول!ﷺ آپ نے اس شخص کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے۔“ فرمایا ” یا مسلم ہے یہاں تک کہ میں تین مرتبہ یہ بات دہرائی اور آپﷺ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر فرمانبردار کو مسلمان تو کہہ سکتے ہیں مگر یقین کیساتھ مومن نہیں کہہ سکتے۔ (ابن کثیر)