وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور اے نبی۔ آپ انہیں قوم عاد کے بھائی (ہود) کا قصہ سنائیے (٥) جبکہ انہوں نے احقاف میں اپنی قوم کو ڈرایا اور ان سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی بہت سے ڈر سنانے والے (پیغمبر) گزرچکے ہیں کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبات نہ کرو میں تم پر ایک بڑے سخت دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں (٦)۔
ف 2 توحید و نبوت کے دلائل پیش کرنے کے بعد قوم عاد کا قصہ بیان فرمایا کہ اہل مکہ اس سے عبرت حاصل کریں (رازی) أَحْقَاف، حقف کی جمع ہے۔ ریت کے بلند اور مستطیل ٹیلے کو حِقْفٌ کہتے ہیں۔ یہاں ” أَحْقَاف “ سے مراد یمن کے مشرق میں حضرموت کا وہ علاقہ ہے جو عرب کے صحرائے اعظم (ربع خالی) کا حصہ ہے حضرت ہود کی قوم عاد اسی علاقہ میں آباد تھی۔ لیکن آج وہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔ ف 3 یعنی قیامت کے دن کا ۔پس یہاں عَظِيمٍ يَوْمٍ کی صفت ہے اور اس دن کی ہولناکی اور سختی کے پیش نظر اس کو بڑا دن کہا ہے بعض نے لکھا ہے کہ یہاں عَظِيمٍ اصل میں عَذَابَ کی صفت ہے اوراس کا مجرور ہونا یوم کے متصل آنے یعنی جوار کی وجہ سے ہے۔ (روح)