سورة آل عمران - آیت 161

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کسی نبی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ (٥٥) اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 اوپر کی آیات میں جہاد احدم میں جو تیر اندازی اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طر لپک پڑے تھے بعد میں آنحضرتﷺ نے ان سے حکم عدولی کی وجہ دریافت فرمائی۔ انہوں نے جب کمزور ساعذر پیش کیا ہمیں ابدیشہ ہوا کہ ہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان مال غنیمت پر قبضہ کرلیں اور ہم محروم رہ جائیں تو آپﷺ نے فرمایا اظننتم انا نغل ولا نقسم کہ تم نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ ہم مال غنیمت میں غلول کریں گے اور مساوی تقسیم نہیں کرنیگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی غلول شان نبوت کے منافی ہے۔ کبیر) بعض علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ بدر کی لڑائی میں کوئی چیز غنیمت سے گم ہوگئی تو کسی شاید آپ ﷺ نے اپنے لیے رکھ لی ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم۔ رازی) شان نزول سے معلوم ہوا کہ غلول کے معنی تقسیم میں جور کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی غلول ہے کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کوئی چیز بلا اجازت اٹھالی جائے (قرطبی) اور غل کے معنی کینہ کے بھی آتے ہیں چنانچہ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : اس آیت سے مسلما نوں کی خاطر جمع کرنی ہے تا یہ نہ جانیں کہ حضرتﷺ ہم کو ظاہر معاف کیا ہے اور دل میں خفا ہیں کبھی خفگی نکا لیں گے۔ (فرمایا) یہ کام نبیوں کہ دل میں کچھ اور ظاہر میں کچھ۔ (مو ضح )