وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
اگر اللہ اپنے سب بندوں کارزق فراخ ردیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگتے لیکن وہ جس قدر چاہتا ہے ایک مناسب انداز سے اتارتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں سے باخبر اور ان پر نگاہ رکھنے والا ہے
ف 2 کیونکہ اس وقت کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا۔ اس لئے من مانی کا رروائی کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے دنیا میں بندے کو دوسرے کا محتاج بنایا اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہم تعاون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یا ” لبغوافی الارض“ کا مطلب یہ ہے کہ انسان مزید کی حرص کرتا اور بے صبری سے مال جمع کرتا ” لو کان لا بن ادم وادیان من ذھب لا تبغی ثالثا“ گو کسی کے پاس مال کی دو وادیاں بھری ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مندہو۔ ( قرطبی) ف 3 اس لئے ہر شخص اپنی حد میں رہنے پر مجبور ہے۔ اب جو بعض بندے اپنی ضروریات سے زیادہ روزی پا کر زمین میں فساد برپا کرتے ہیں تو ان کا یہ فساد استثنائی قسم کا ہے عام فساد نہیں ہے۔