سورة الشورى - آیت 13

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تمہارے لیے دین کا وہی راستہ ٹھہرایا ہے جس کے لیے نوح کو وصیت کی گئی تھی اور اے پیغمبر اسلام جس کے لیے ہم نے تم پروحی کی ہے نیز یہ وہی راستہ ہے جس کے لیے ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی وصیت کی تھی کہ دین الٰہی قام کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ یہی بات مشرکوں پر شاق گزرتی ہے جس کیطرف تم ان کو دعت دے رہے ہو اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لیے چن لیتا ہے اور جورجوع کرتا ہے اس کی اپنی طرف رہنمائی کرتا ہے (٧)۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 10 یعنی دین ” اسلام“ یا ” توحید“ جس کی طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رے ہیں، کوئی نیادین نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین ہے جس کا حکم نوح ( علیہ السلام)، ابراہیم ( علیہ السلام)، موسیٰ ( علیہ السلام)، عیسیٰ ( علیہ السلام) اور پچھلے تمام پیغمبروں ( علیہ السلام) کو دیا گیا تھا۔ یہ تمام پیغمبر ( علیہ السلام) اصول عقائد میں متفق تھے اور لوگوں کو انہی چیزوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتے تھے جن پر ایمان لانے کی دعوت آج محمدﷺ دے رہے ہیں۔ ( قرطبی وغیرہ) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی ہے اس کے قائم کرنے کے طریق ہر وقت ( یعنی زمانہ) میں جدا ٹھہر دیئے ہیں اللہ نے اور انہی طرق کو شرائع کیا جاتا ہے۔ ف 11 یا دین کو قائم کرو لفظ اقیمو الدین کے یہ دونوں معنی ہو سکتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے دونوں پر مامور ہوتے ہیں۔ ف 12 دین میں پھوٹ ڈالنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض باتوں کو ماننے سے انکار کیا جائے یا ان کی من مانی تاویل کی جائے۔ ف 13 یا توحید اور اپنے دین میں داخلہ کیلئے چن لیتا ہے۔ ف 14 یعنی اسے اپنے قرب اور نیک عمل کی توفیق دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کی توفیق و ہدایت پانے کیلئے اس کی طرف دل سے رجوع ہونا ضروری ہے۔