وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
پھر (ایسا ہوا کہ) ہم نے آدم سے کہا "اے آدم تو اور تیری بیوی دنووں جنت میں رہو جس طرح چاہو کھاؤ پیو، امن چین کی زندگی بسر کو، مگر دیکھو، وہ جو ایک دخرت ہے تو کبھی اس کے پاس بھی نہ پھٹکنا، اگر تم اس کے قریب گئے تو (نتیجہ یہ نکلے گا کہ) حد سے تجاوز کر بیٹھو گے، اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤ گے جو زیادتی کرنے والے ہیں
ف 4: اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کر وانے کے بعد انہیں جنت میں سکونت کی اجازت دی بعض نے اس جنت سے زمین پر کوئی باغ مراد لیا ہے مگر صحیح یہ ہے یہ جنت آسمان پر تھی پھر جس درخت کے قریب جا نے سے آدم کو منع فرمایا ہے اس کی تعیین میں اختلاف ہے حافظ ابن کثیر مختلف اقوال نقل کرنے بعد لکھتے ہیں قرآن نے اس کے نام یا خاصیت کی کوئی تصریح نہیں فرمائی اور نہ کسی حدیث سے اس کی تعیین ہوتی ہے پھر نہ اس کے جاننے میں کوئی علمی یا اعتقادی فائدہ پنہاں ہے اور نہ اس کے نہ جاننے میں کوئی ضرر ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کی تعیین سے احتراز کیا جائے یہی رائے حافظ ابن القیم اور امام رازی کی ہے اور اکثر سلف امت کا بھی یہی قول ہے، عصمت انبیاء کے لیے دیکھئے سورت ص اور حوا کی پیدائش کے لیے نساء اور اعراف)