يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو (٤٤)
ف4 جنگ احد کے تذکرہ میں سود کی حرمت کا حکم بظاہر بے ربط سا معلوم ہوتا ہے مگر علما نے لکھا ہے کہ اوپر جہاد میں ’’فشل ‘‘نامردی کا ذکر ہوا ہے اور سود خواری سے قوم میں وھن اور بزدلی پیدا ہوتی ہے خود غرضی اور بخل کا جذبہ فروغ پا جاتا ہے۔ اور سود خوار قوم جہاد کے قابل نہیں رہتی اور پھر انصار کے یہود کے ساتھ سودی لین دین کے تعلقات تھے اور احد میں منافقین یہود کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا گویا اس کو حرام قرار دیکر ان تعلقات کو ختم کردیا۔ ( حواشی مختلفہ) زمانہ جا ہلیت میں بہت سے لوگ دوسروں کو سودی قرضے دیا کرتے جب قرضہ کی میعاد ختم ہوجاتی تو مقروض سے کہتے قرض اد اکر و ورنہ سو دمیں اضافہ کرو۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں میعاد میں توسیع کردی جاتی اور سود کی مقدار اصل زرسے بھی کئی گنا زیادہ ہوجاتی اور یہ سود تجارتی اور غیر تجارتی دونوں طرح کا ہوتا تھا۔ جیسا کہ آیت کی تفسیر کے تحت تابعین نے تصریح کی ہے سودی کاروبار کی اس بھیانک صورت حال کی طرف قرآن نے أَضۡعَٰفٗا مُّضَٰعَفَةٗ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے ورنہ یہ مطلب نہیں ہے کہ مرکب سود حرام ہے اور سادہ جائز ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا سود حرام ہے اور اس کا ادنیٰ ترین گناہ ماں سے بد کاری کے برابر ہے۔ باقی دیکھئے بقرۃ آیت 275 )شوکانی ،۔ ابن کثیر )