وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
اور اے پیغمبر آپ سے پہلے ہم نے کتنے ہی پیغمبر مبعوث فرمائے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات آپ کو نہیں سنائے (یعنی قرآن مجید میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا) اور کسی رول کو یہ مقدور نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لے آتا پھر جب وہ وقت آگیا کہ حکم الٰہی صادر ہو تو (خدا کا فیصلہ) حق نافذ ہوگیا اور اس وقت ان لوگوں کے لیے جو برسرباطل تھے تباہی ہوئی ہے (١٠)۔
ف 12 یعنی بعض کا تفصیلی حال بیان کیا اور بعض کا نہیں کیا۔ بہر حال سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ یعنیلَمْ نَقْصُصْان پیغمبروں (علیهم السلام) سے کئی گنا کثیر تعداد میں ہیں جن کے احوال قرآن میں مذکور ہیں۔ جیساکہ سورۃ نساء( آیت 64) میں اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ ( واللہ الحمد والمنہ) کسی قوم کے کسی قدیم رہنماء کے متعلق ( جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہو کر گزرے ہیں) قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ نبی نہ تھا۔ ممکن ہے کہ وہ نبی ہو اور اس نے توحید ہی کی دعوت پیش کی ہو مگر بعد کے لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسخ کردیاهو۔ ف 13 مطلب یہ ہے کہ معجزہ کوئی کھیل نہیں کہ کافروں نے جب چاہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبه کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب چاہا اسے دکھا دیا۔ بلکہ اسکی حیثیت دو ٹوک فیصلے کی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ہی جب چاہتا ہے اسے اپنے کسی نبی (علیه السلام) کے ہاتھ سے دکھواتا ہے اور جب تک نہیں چاہتانہیں دکھواتا۔ معجزہ ظاہر ہونے کے بعد مومنوں کی نجات اور باطل پرستوں کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔۔ یہ کفار مکہ کے اس مطالبہ کا جواب ہے جو وہ نبی ﷺ سے معجزہ دکھانے کیلئے آئے دن کرتے رہتے تھے۔