وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ
بلاشبہ اس سے پہلے یوسف بھی تمہارے پاس واضح دلائل لے کرآئے تھے مگر تم اس کے لائے ہوئے دلائل میں ہمیشہ شک میں پڑے رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہا اب ان کے بعد اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا اسی طرح اللہ ان لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکوک وشبہات میں رہنے والے ہیں
ف ٦ یعنی ایسے معجزے جن سے ان کا نبی ہونا قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ جیسے بادشاہ کے خواب کی تعبیر جس کی بدولت نہ صرف مصر بلکہ ارد گرد کے تمام علاقوں کو انتہائی خوفناک قحط سے نجات نصیب ہوئی تھی۔ ف ٧ یعنی گو تمہارے بادشاہ نے انہیں اپنا ویزر بنا کر عملاً تمام اختیارات ان کے سپرد کردیئے تھے اور تم ان کے اخلاق اور ملکی انتظام میں مہارت کے بھی قائل ہوئے مگر تم نے جیتے جی ان کی نبوت کا اقرار نہ کیا بلکہ شک ہی میں پڑے رہے۔ ف ٨ یعنی ان کی وفات کے بعد جب سلطنت کا بندوست بگڑا گیا تو تم ان کی عقیدت کا اظہار کرنے لگے کہ ان کا قدم مصر کے حق میں بڑا مبارک تھا لیکن عقیدت کے اس اظہار میں تم اس قدر بڑھے کہ کہنے لگے کہ بس وہ اللہ کے آخری رسول تھے۔ ان کے بعد کوئی شخص اللہ کی طرف سے رسول بن کر نہیں آسکتا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یا وہ انکار یا یہ اقرار یہی اسراف اور یا وہ کوئی ہے“۔ ( موضح)