أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہوگئے پھر اسی پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں، پھر ان کی نشوونما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہوگئیں پھ رترقی کے بعد زوال طاری ہو اور تم دیکھتے ہو کہ ان پر زردی چھاجاتی ہے پھر وہ خشک ہو کر چورا چورا ہوجاتی ہیں بلاشبہ دانش مندوں کے لیے اس صورت حال میں بڑی ہی عبرت ہے (٩)۔
ف ٧ کیونکہ یہی حال انسان کا ہے۔ پہلے بچہ ہوتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے پھر پختہ ہو کر بوڑھا ہوجاتا ہے اور آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے اور یہی حال دنیا کا ہے۔ اس کی سب زمینیں عارضی اور چند روزہ ہیں اور آخر کار اس کی ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ اس کے ہر کمال کو انحطاط اور ہر عروج کو زوال ہے۔