سورة البقرة - آیت 33

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(جب فرشتوں نے اس طرح اپنے عجز کا اعتراف کرلیا، تو) حکم الٰہی ہوا۔ "اے آدم، تم (اب) فرشتوں کو ان (حقائق) کے نام بتلا دو" جب آدم نے بتلا دیے تو اللہ نے فرمایا " کیا میں نے تم سنے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے تمام غیب مجھ پر روشن ہیں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میری علم میں ہے اور جو کچھ تم چھپاتے تھے وہ بھی مجھ سے مخفی نہیں"

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1۔ اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا علم جزوی حثیت کا ہے اور وہ باوجود مقرب ہونے کے علم غیب نہیں رکھتے۔ حدیث عائشہ (رض) میں ہے کہ جو شخص یہ گمان کرے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل کی بات جانتے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ (صحیح مسلم) پھر نجومیوں اور کا ہنوں کے متعلق یہ اعتقاد کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں صریح نادانی اور جہالت ہے۔ (وحیدی) اور کوئی غیب کی بات پوچھنے کے لیے کاہن یا نجومی کے پاس جا نا اور اس کی تصدیق کرنا کفر ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 2۔ علم کے ذریعہ آدم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر کرنے کے بعد اب فرشتوں پر اسے دوسرے اشرف یہ بخشا کہ ان کو آدم کو سامنے سجدہ کا حکم دیا۔ اس سجدہ سے مراد محض تسخیر نہیں ہے بلکہ اپنی ہبیت کے ساتھ ہے علما نے بیان کیا ہے کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو پہلی امتوں میں جائز چلا آرہا تھا اسلام نے سے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے۔ ورنہ سجدہ عبادت تو غیر اللہ کے لیے شرک ہے اللہ تعالیٰ اس کا حکم فرشتوں کو کیسے دے سکتے تھے اور صحابہ کرام نے آنحضرت سے اجازت مانگی کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کرلیا کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں کسی بشر کو دوسرے بشر کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو سب سے پہلے عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ ( قرطبی۔ فتح القدیر) مگر افسوس ہے جاہل صوفی اور عوام جب مشائخ کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں تو ان کو سجدہ انہوں نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔