ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
وہ جہاں کہیں پائے جائیں، ان پر ذلت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہوجائے یا انسانوں کی طرف سے کوئی ذریعہ نکل آئے جو ان کو سہارا دیدے، انجام کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (نیز) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے، اور ساری حدیں پھلانگ جایا کرتے تھے۔
ف 1 یعنی مغلوب ہونے کے ساتھ ان پر ذلت بھی مسلط کردی گئی دیکھئے سورة بقرة آیت 61 (کبیر) بعض کے نزدیک اللہ کی پناہ یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور لوگوں کی پناہ یہ کہ معاهد اور ذمی بن کر رہیں۔ ( خازن) مگر یہ صحیح نہیں ہے بلکہ دونوں جگہ ہی حبل سے مراد عہد ذمہ اور امان ہے اور معنی یہی ہیں کہ وہ امان میں آجائیں اور معا ہد اور زمنی بن کر رہیں مگر ذمی کو جوامان حاصل ہوتی ہے وہ دو قسم کی ہے ایک جزیہ کی صورت میں جس پر قرآن نےİ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَĬ(التوبہ 29) فرماکر تنصیص کی ہے اور حبل اللہ سے یہی مراد ہے دوسری وہ جس کی شرائط واختیارات امام اور حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں یعنی جزیہ میں کمی بیشی اسی کو اس آیت میںİ حَبۡلٖ مِّنَ ٱلنَّاسِĬسے تعبیر فرمایا ہے۔ (کبیر) حضرت شاہ صاحب نے حبل کے معنی دستاویز کے كئے ہیں اور فائدہ میں لکھا ہے یعنی یہود کہیں اپنی اپنی حکومت سے نہیں رہتے بغیر دستاویزات اللہ کے کہ بعض رسمیں تورات کی عمل میں لاتے ہیں اور اس کے طفیل پڑے ہیں اور بغیر دستاویز لوگوں کے یعنی کسی کی رعیت میں اس کی پناہ میں پڑے ہیں (موضح) ف 2 یعنی نافرمانی اور اعتد کایہ اثر ہوا کہ لگے کفر کرنے اور پیغمبروں کو مانے اور پھر کفر وقتل انبیا ( علیہ السلام) کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اترا ذلیل اور محتاج ہوگئے حکومت اور ریاست چھن گئی۔ (وحیدی) حاصل یہ کہ ذلت وغضب اور مسکنت کی علت کفر اور قتل انبیا ہے اور کفر اور قتل انبیا کی علت ان کی نافرمانی اور زیادتی ہے۔ پس ذَٰلِكَ بِمَا عَصَواْسے علت العلتہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ امام رازی نے لکھا ہے جو شخص ترک آداب کرے گا اس سے ترک سنن کا ارتکاب ہوگا اور ترک سنن کا نتیجہ ترک فرائض کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ترک فرائض سے شریعت کی اہانت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اهانت شریعت سے انسان کفر کے گرھے میں گر جاتا ہے۔ (کبیر )