كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔
ف 7 یعنی آنحضرت ﷺ چونکہ انبیائ سے افضل ہیں اس لیے امت محمدی علی صاحبھا الف تحیتہ وسلام تمام امتوں سے افضل اور بہتر ہے جیسا کہ حدیث تفضیل علی الا نبیا میں ہے وجعلت امتی خیر الا ھم کہ میری امت تمام امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے نیز دیکھئے۔ بقرہ آیت 143) اور امت کی یہ فضیلت آیت میں مذکورہ صفات کی وجہ سے ہے ایک امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی جہاد فی سبیل اللہ دوسری ایمان باللہ یعنی خالص توحید کا عقیدہ۔ ایمان اللہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام رسول ( علیہ السلام) اور کتابوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جو شخص افضل امت میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس مذکورہ شرط کو پورا کرے حضرت ابن عباس (رض) اس خیر امتہ سے صرف مہاجرین مراد لیتے ہیں مگر آیت عام ہے اور اقیامت تک ہر قرن کے مسلمان اپنے زمانہ کے اعتبار سے دوسروں سے افضل ہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 8 اس میں اہل کتاب کو اسلام کی تر غیب ہے اور معا مذین کی مذمت ،(ابن کثیر) یہود نے صحابہ رضی (رض) سے بحث کی اور کہا کہ ہم سب امتوں سے افضل ہیں اور ہمارا دین سب دینوں سے بہتر ہے تب یہ آیت اتری۔ (وحیدی ) ف 9 جیسے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا کتابوں میں تحریف کرنا اور تم پر بہتان طرزیاں کرنا وغیرہ (شوکانی) گویا اس آیت میں ای دوسرے طریق سے ایمان پر ثبات کی تر غیب دی ہے (کبیر )