سورة آل عمران - آیت 110

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7 یعنی آنحضرت (ﷺ) چونکہ انبیا سے افضل ہیں اس لیے امت محمدی علی صاحبھا الف تحیتہ وسلام تمام امتوں سے افضل اور بہتر ہے جیسا کہ حدیث تفضیل علی الا نبیا میں ہے (وجُعِلتْ أمَّتي خيرَ الأمَمِ) کہ میری امت تمام امتوں سے بہتر بنائی گئی ہے( نیز دیکھئے۔ بقرة آیت 143) اور امت کی یہ فضیلت آیت میں مذکورہ صفات کی وجہ سے ہے ایک امربالمعروف ونہی عن المنکر یعنی جہاد فی سبیل اللہ دوسری ایمان باللہ یعنی خالص توحید کا عقیدہ۔ ایمان باللہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام رسول ( علیہ السلام) اور کتابوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جو شخص افضل امت میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اس مذکورہ شرط کو پورا کرے حضرت ابن عباس (رض) اس خیر امة سے صرف مہاجرین مراد لیتے ہیں مگر آیت عام ہے اور قیامت تک ہر قرن کے مسلمان اپنے زمانہ کے اعتبار سے دوسروں سے افضل ہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 8 اس میں اہل کتاب کو اسلام کی تر غیب ہے اور معا ندین کی مذمت ،(ابن کثیر) یہود نے صحابہ (رض) سے بحث کی اور کہا کہ ہم سب امتوں سے افضل ہیں اور ہمارا دین سب دینوں سے بہتر ہے تب یہ آیت اتری۔ (وحیدی )