سورة ص - آیت 35

قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کہا، اے میرے رب میرے قصور معاف کردے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کرجومیرے بعد اور کسی کے لیے مناسب نہ ہو، بے شک تو بڑا ہی دینے والا ہے (٥)۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٣ اس واقعہ کی تفصیل میں بہت سے علما نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ کچھ عرصہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے تخت پر صخر نامی ایک جن کو قابض کردیا تھا۔ اس کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی ایک بیوی بت پرست تھی۔ اس کی یہ سزا ملی کہ جتنی مدت اس بیوی نے بت پرستی کی تھی اتنی مدت کیلئے حضرت سلیمان ( علیہ السلام) تخت سلطنت سے محروم کردیئے گئے اور ان کی انگوٹھی جس میں اسم اعظم تھا ایک لونڈی کے واسطہ سے صخر کے ہاتھ پڑگئی۔ اس کے ہاتھ سے وہ انگوٹھی دریا میں گر گئی اور ایک مچھلی نے اسے نگل لیا، پھر وہ مچھلی شکار ہو کرحضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس آئی اور اس طرح انہوں نے اس کے پیٹ سے انگوٹھی کو نکال کر پھر اپنا تخت واپس لے لیا، مگر یہ سارا قصہ اہل کتاب سے مآخوذ ہے اور اہل کتاب میں سے اکثر وہ ہیں جو حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کو اللہ کا نبی نہیں مانتے، ان کا مقصد انہیں زیادہ سے زیادہ بد نام کرنا ہے۔ ( ابن کثیر) بعض مفسرین (رح) نے اس آیت کی تفسیر صحیح بخاری کی ایک روایت سے کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ آج میں اپنی ستر بیویوں سے ہم بستری کروں گا اور ان میں سے ہر ایک بیوی ایک شہسوار بچے کو جنم دے گی مگر انشاء اللہ کہنا بھول گئے نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے صرف ایک بیوی حاملہ ہوئی اور اس نے ایک ناقص بچے کو جنم دیا جو حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے تخت پر لا کر لٹایا گیا “۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر وہ انشاء اللہ کہہ دیتے تو ہر بیوی سے مجاہد پیدا ہوتا۔ یہ واقعہ بیشک صحیح ہے مگر اسے زیر بحث آیت کی تفسیر میں قرار دینا تفسیر باالرائی ہے۔ جس حد تک ” فتنہ“ یعنی آزمائش کا تعلق ہے اسے تو قرآن نے بیان کیا ہے اور یہ کہ اس آزمائش سے متنبہ ہو کر حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے دعا کی جس کے آگے ذکر آرہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبولیت بخشی اور ان کی عظمت شان کو سراہا مگر اس آزمائش کی تعیین میں قرآن و حدیث سے کوئی تصریح نہیں ملتی اس لئے اسے مجمل ہی رہنے دیا۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور ابن حزم (رح) اور بعض دوسرے جلیل القدر محدثین و مفسرین (رح) نے یہی راہ اختیار کی ہے۔ ( منہ) ف ٤ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رات کو نماز میں ایک شریر جن کو پکڑ لیا اور ارادہ کیا کہ اسے ستون سے باندھ دیا جائے تاکہ سب اسے دیکھیں مگر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلیمان کی یہ دعا یاد آگئی اور اسے چھوڑ دیا۔ ( ابن کثیر)