وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگے کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔
ف 5 یہاں حبل اللہ۔ اسے مراد قرآن ہے متعدد احادیث میں بھی قرآن کو حبل اللہ الممدود فرمایا گیا ہے۔ (شوکانی مسلمان ہو جو فرقہ بندویوں بھی اسی صورت میں نجات پا سکتے ہیں کہ قرآن کا لا ئحہ عمل قرار دیں اور ذاتی آراو وخیالات کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھنے کی کو شش کریں اور ائمہ دین کے اقوال و فتاوی ٰ کا قرآن وسنت کا درجہ دے کر تحرتب اختیار کریں۔ ف 6 اسلام سے پہلے اوس و خزرج ہی نہیں بلکہ عرب شرک و کفر اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے اسی کو یہاں آگ کے کنارے کھڑا ہونے سے تعبیر فرمایا ہے مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گر نے سے بچالیا اور عداوت کی بجائے اخوت پیدا کردی (قرطبی۔ ابن کثیر )