يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ
اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی بات مان لو گے تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تم کو دوبارہ کافر بان کر چھوڑیں گے۔
ف 2 اوپر کی دو آیتوں میں اہل کتاب کو دعوت سنائی گئی جو لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے اب یہاں سے مسلمانوں ج کو نصحیت فرمائی جارہی ہے کہ ان سے ہو شیار رہیں اور گمراہی میں نہ پڑجائیں (کبیر۔ فتح القدیر) شاہ صاحب (رح) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہوں کا جواب دے کر مسلمانوں سے فرمایا کہ ان کی بات مت سنویہی علاج ہے نہیں تو شب ہے سنتے سنتے اپنی تازہ اپنی راہ سے پھسل جاو گے اب بھی مسلمان کا فرض ہے کہ اصحاب تشکیک کی بات نہ سنے اس میں دین کی سلامتی ہے اور بحث و جدال سے شب ہے بڑھتے ہیں۔ (وحید ی) اانصار کے دو قبیلوں اور و خزرج کے درمیان اتحاد واتفاق پر یہود کو بہت حسد تھا ایک روز شاس بن قیس یہودی ان کی مجلس کے پاس سے گزرا اور ان کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر غصے سے جل بھن گیا اس نے ایک نو جوان یہودی کو بھیجا کہ انصار کی مجلس میں جا کر جنگ بعاث کر تذکرہ شروع کر دو اور اوس و خز راج نے جو ایک دوسرے لے مقابلہ میں اشعار کہے ہیں ان کو دہرا و۔ اس نے ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فریقین کے درمیان پرانی دشمنی کے جذبات بیدا ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف تلواریں اٹھالیں۔ آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی تو مہاجرین کے لوگ فورا وہاں پہنچ گئے اور فریقین کو ٹھنڈا کیا اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (ابن کثیر )