مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
جولوگ عزت کے بھوکے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تمام عزت بخشیاں اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں تمہارے اعمال صالحہ اس کی درگاہ تک پہنچتے ہیں اور وہی نیک عمل کرنے والوں کے درجے بلند کرتا ہے اور جو لوگ برائیوں کے لیے مکروسازش کررہے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی نابود ہوجائے گا
ف 14 لہٰذا اسی سے عزت مانگنی چاہیے۔ کفار بتوں کی عبادت کرتے کہ ان کے لئے عزت کا باعث بنیں۔ ( سورۃ مریم، آیت 81) اور بعض ضعیف الایمان اور منافق قسم کے مسلمان کفار سے دوستی کرتے کہ دنیا میں با عزت زندگی بسر کرسکیں۔ ( سورۃ نساء آیت 139) فرمایا کہ اگر عزت چاہتے ہو تو اسی کی اطاعت اور عبادت کر کے عزت طلب کرو، کیونکہ ہر قسم کی عزت اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ عزت ایسی ہے جس کے ساتھ ذلت نہیں ہے۔ ( ابن کثیر وغیرہ) ف 15 یعنی اس کے ہاں قبول ہوتا ہے۔ ( فالصعود کنایۃ عن القبول) پاکیزہ کلمہ سے مراد کلمہ توحید ( لا الٰہ الا اللہ) بھی ہے اور ہر وہ بات جو پاکیزہ ہوجیسے سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر یعنی تسبیح و تحمید اور ذکر الٰہی ( قرطبی وغیرہ) ف 16 یعنی کوئی کلمہ چاہے اپنی جگہ پاکیزہ ہو لیکن قبول اسی وقت ہوتا ہے جب اسکے ساتھ عمل بھی نیک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ عمل کا نیک ہونا ” پاکیزہ کلمات“ کی قبولیت کیلئے شرط ہے جیسا کہ بعض آثار سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اور نیک عمل سے مراد وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اور اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہی گئی ہو نہ کہ کسی اور کی، بعض مفسرین (رح) نے ” يَرْفَعُهُ “ میں ” يَرْفَعُ“ کی ضمیر پاکیزہ کلموں کیلئے اور ” ہ“ کی ضمیر عمل صالح کیلئے قرار دیتے ہوئے یہ معنی کئے ہیں کہ ” پاکیزہ کلمہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے “۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ قبولیت پانے کیلئے پاکیزہ کلمہ اور نیک عمل لازم و ملزم ہیں“۔ ( شوکانی) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں !” یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے تمہارے ذکر او بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں جب اپنی حد کو پہنچیں گے تب بدی پر غلبہ حاصل کریں گے کفر دفع ہوگا ( اور) اسلام کو عزت نصیب ہوگی“۔ ف 1 چنانچہ ایک مرتبہ ” دارالندوہ“ میں بیٹھ کر انہوں نے یہ خفیہ اسکیم بنائی کہ ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی اٹھے اور سب مل کر محمدﷺ پر یک ہارگی حملہ کریں پھر انہوں نے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچا لیا اورا سکیم بنانے والے خود ذلیل و خوار ہوئے اور ان کے بڑے بڑے سردار جنگ بدر میں مارے گئے۔ بعض نے اس سے ریا کار لوگ مراد لئے ہیں۔ ( قرطبی)