أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَآهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
بھلا وہ شخص جس کے لیے اس کابراعمل خوشنما بنادیا گیا اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے پس (اے نبی) ان کافروں پر حسرتیں کھاکر کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے جو کچھ یہ کررہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے (٤)۔
ف ٧ وہ اس شخص جیسا ہوسکتا ہے کہ اگرچہ برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے بھلا نہیں سمجھتا ؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے، ایک شخص جو برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے اس کے متعلق تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی راہ راست پر آجائے گا لیکن جو شخص برا کام کرتا ہے مگر اسے اچھا سمجھ کر کرتا ہے، اس کے راہ راست پر آنے کی کبھی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے بعض سلف (رح) کا قول ہے کہ گناہ گاہ کے توبہ کرنے کی امید تو کی جاسکتی ہے لیکن بدعتی اپنی بدعت باز نہیں آسکتا کیونکہ وہ بدعت کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔ یہاں سو عمل سے شرک، بدعت اور گمراہی سبھی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ یہ آیت عاص بن وائل سہمی وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ( قرطبی) ف ٨ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ رہی ہدایت اور گمراہی تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی کام اس کی مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن یہ نتیجہ خود آدمی کے اپنے عمل کا ہوتا ہے۔ ف ٩ کیونکہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس میں نہیں ہے۔ ف ١٠ لہٰذا یہ نہ سمجھئے کہ وہ اس کی پکڑ سے محفوظ رہیں گے۔