هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(اور دیکھو) یہ اسی (پروردگار) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے زمین کی ساری چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں (تاکہ جس طرح چاہو ان سے کام لو) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمان درست کردیے (جن سے طرح طرح کے فوائد تمہیں حاصل ہوتے ہیں) اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے
ف 3: یہی معنی اما م بخاری نے ابو العالیہ سے اور ابن جریر نے ربیع بن انس (رض) سے رایت کیے ہیں۔ یہ یعنی استوی الی السمآء یا استو علی العرش اللہ کی صفت ہے اور صفات الہیہ کے بارے میں سلف تاویل کے قائل نہیں بلکہ ان کو ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں۔ (ترمذی) اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا کی گئی۔ اور یہی بات حم السجدہ کی آیات سے ثابت ہوتی ہے مگر سورۃ الناز عات میں İوَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَاĬ بظاہر اس کے خلاف ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ تخلیق تو پہلے سےہے مگر دَحْو بعد میں ہے۔ (ابن کثیر) ف: 4 حدیث میں ہے کہ دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔( نیز) حدیث میں ہے کہ جس نے ظلم سے کسی کی ایک بالشت زمین پر بھی قبضہ کرلیا قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمینیں بھی سات ہیں اور آیت İوَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّĬ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ( ابن کثیر۔ قرطبی)