قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
(مسلمانو ! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، ( اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں۔
ف 3 یعنی اہل کتاب کو اس مشترکہ عقیدہ کی طرف دعوت دو۔، چنانچہ آنحضرت( ﷺ) نے جب ہر قل (شاہ روم) کو خط لکھا تو یہی آیت لکھ کر اس کے سامنے دعوت اسلام پیش کی جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ اور مدینہ کے یہود کے سامنے بھی اسی( کلمہ سواء) کی دعوت پیش کی اور آپس میں ایک دوسرے کو رب بنانے کے مفہوم میں سجدہ کرنا بھی شامل ہے۔، اور یہ بھی کہ کسی کے قول کو بلاد لیل اسی طرح مان لینا کہ جس چیز کو حلال کہے اسے حلال سمجھا جائے اور جس چیز کو حرام کہے اسے حرام خیال کیا جائے اور کتاب وسنت سے صرف نظر کرلی جائے۔ مزید دیکھئے۔ التو بہ آیت :31۔ (شوکانی۔ وحیدی بتصرف) حاٖفظ ابن کثیر (رح) نے اس آیت پر ایک اشکال پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ محمد بن اسحاق کے بیان کے مطابق اگر آل عمران کی ابتدائی 83 آیتوں کا سبب نزول وفد نجران کی آمد کو قرار دیا جائے جو بالا تفاق9 ھ میں مدینہ آیا تو پھر آپ( ﷺ) نے ہر قل کی طرف یہ آیت کیسے لکھ کر بھیج دی جو 7 ھ کا واقعہ ہے۔ پھر اس کے چار حل پیش کیے ہیں۔ فی الجملہ یہ کہ(1) آیت کا نزول دو مرتبہ تسلیم کیا جائے(2) یا 83آیتوں کی تعیین کو محمد بن اسحق کا وہم قرار دیا جائے۔(3) آنحضرت( ﷺ) نے دعوت اسلام کے لیے یہ جملے اپنے طور پر لکھ کر بھیجے ہوں۔ بعد میں یہ آیت اس کے مطابق نازل ہوئی ہوجیساکہ بہت سی آیات حضرت عمر (رض) کے موافق نازل ہوئیں۔(4) ہوسکتا ہے کہ وفد نجران کی آمد صلح حدیبیہ سے قبل ہو۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی اگر اہل کتاب اس عقیدہ کے ماننے سے انحراف کریں تو تم اپنی طرف سےاس عقیدہ پر قائم رہنے کا اعلان کردو۔ اس میں متنبہ کیا ہے کہ اہل کتاب اس عقیدہ سے منحرف ہوچکے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت عزیر ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرردے لیا تھا۔ (ابن کثیر۔)