فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
تمہارے پاس ( حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (٢٥)
ف 1 جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں اظہار حق اور دلائل کے باوجود وفد نجران نے عناد کی راہ اختیار کی تو آخری فیصلہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (ﷺ) کو ان سے مباہلہ کا حکم دیاجس کی صورت یہ تجویز ہوئی (جیسا کہ آیت میں مذکور ہے) کہ فریقین اپنی جان اور اولاد کے ساتھ ایک جگہ حاضر ہوں اورجو فریق چھوٹا ہے نہایت عجزوانکسار کے ساتھ اس کے حق میں بد دعا کریں کہ اس پر خدا کی لعنت ہو۔ چنانچہ آنحضرت( ﷺ) مباہلہ کے لیے حضرت فا طمہ (رض)، امام حسن (رض)، امام حسین (رض) اور حضرت علی (رض) کو لے کر نکل آئے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ خلفائے اربعہ اور ان کی اولاد بھی ساتھ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر نصاری ٰنے ایک دوسرے سے کہا کہ ہم ان سے ’’ملا عنہ‘‘ نہ کریں۔ خدا کی قسم اگر یہ اللہ کے نبی ہوئے اور اس کے باوجود ہم نے ملا عنہ کرلیا تو ہما ری اور ہماری اولاد کی خیر نہیں ہوگی، چنانچہ انہوں نے آنحضرت (ﷺ)سے عرض کی آپ (ﷺ) جو چاہتے ہیں ہم آپ(ﷺ) کو دیں گے۔ لہذا آپ(ﷺ)ہمارے ساتھ کوئی امانتدار آدمی بھیج دیجئے۔ نبی( ﷺ) نے حضرت ابوعبیدہ (رض) کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور فرمایا :( هذا أمِينُ هذِه الأُمَّةِ.)۔ کہ یہ اس امت کے امین ہیں۔، یہ حدیث صحیحن میں مذکور ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) اس آیت سے علما نے استدلال کیا ہے کہ’’ معاند عن الحق‘‘ سے مباہلہ ہوسکتا ہے۔