سورة السجدة - آیت 4

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان تمام چیزوں کو جوان دونوں کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر مستوی ہوا بجزاس کے نہ تمہارا کوئی سازگار ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہے پھر کیا تم سوچتے نہیں ہو؟ (٣)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 10 ” چھ دنوں“ سے مراد دنیا کے چھ دن نہیں بلکہ چھ ادوار ہیں یا آخرت کے چھ دن (دیکھیے سورۃ احراف آیت 74) ف ١ یعنی ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے۔ بہت سی احادیث اور آثار و اقوال سے بھی اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا ثابت ہے۔ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ سلف کا اس پر اجماع ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثہ میں لکھتے ہیں کہ ارسطو سے پہلے تمام فلاسفہ حدوث عالم کے قائل تھے اور یہ کہ صانع عالم موجود اور تمام مخلوق سے الگ ہے اور اپنی ذات سے آسمانوں اور تمام جہاں کے اوپر ہے۔ الغرض سارے اہل شریعت اور عقلا اسی عقیدہ پر متفق چلے آتے ہیں، صرف معتزلہ نے اس صف کی نفی کی ہے، پھر متاخرین اشاعرہ ان کے تابع ہوئے۔ از حاشیہ جامع البیان ( نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٩، سورۃ اعراف آیت ٥٤ و طہٰ آیت ٥)۔ ف ٢ یعنی اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو کوئی نہیں جو تمہاری مدد کرکے تمہیں اس سے چھڑاسکے یا خود اس کے اذن کے بغیر اس سے تمہاری سفارش کرسکے۔