سورة لقمان - آیت 14

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکید کی ہے اس کی ماں نے ضعف پر ضعف برادشت کرتے ہوئے اس کو پیٹ میں رکھا اور دوسال اس کو دودھ چھوٹنے میں لگے۔ اس لیے ہم نے اسے تاکید کی ہے کہ (اے انسان) تو میرا اور اپنے والدین کاشکر گزار بن کررہ میرے ہی پاس لوٹ کرآنا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ والدین کی شکر گزاری کا حکم دینا ان کے حق کے بڑا ہونے کی دلیل ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یہ کلام بیچ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لقمان نے بیٹے کو ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی غرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی فرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق فرما دیا کہ اللہ کے حق کے بعد ماں باپ کا حق ہے اور رسول اور مشرد کا حق اللہ ہی کی طرف سے ہے کہ اس کے نائب ہیں۔ (نیز دیکھیے سورۃ اسرائیل آیت 24۔23 و عنکبوت آیت 8) ف 5 اس لئے معلوم ہوا کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے اور اس کو سورۃ بقر میں رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت قرار دیا گیا ہے۔ دیکھیے آیت 233) سورۃ لقمان کی اس آیت سے حضرت ابن عباس اور دوسرے اہل نے یہ استنباط بھی کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ احقاف کی آیت وحملہ و فصالہ ثلاثون شھراً سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 6 تاکہ تیرے اعمال کا حساب لیا جائے۔ اگر شکر کرے گا تو اس کی جزا اور ناشکری کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ “