إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
(اس کی تدبیر اس وقت سامنے آئی) جب اللہ نے کہا تھا کہ : اے عیسیٰ میں تمہیں صحیح سالم واپس لے لوں گا، (٢٣) اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان ( کی ایذا) سے تمہیں پاک کردوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری اتباع کی ہے، ان کو قیامت کے دن تک ان لوگوں پر غالب رکھوں گا جنہوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ (٢٤) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔
ف 2 التوفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا لینے اور وصول کرلینے کے ہیں، اور یہ اس لفظ کے اصل معنی ہیں۔ اس بنا پر آیت میں متوفیک کے معنی ہیں میں تمہیں پورا پورا لینے والا ہوں۔ اور یہ اس صوت میں ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے روح مع البدن اٹھا لیا جاتا۔ دہلوی متراجم ثلاثہ میں بھی توفی کے اس مفہوم کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کی ایک توجیہ وہ ہے جو متراجم (رح) نے اختیار کی ہے یوں تو قرآن میں اس کے معنی سلادینا بھی آئے ہیں۔ جیساکہ آیت وھو الذی یتو فٰفکم بالفبل (الف م آیت 60) اور آیت والتی لم تمت فی منا مہا (الذمر 42) میں مذ کور ہے شیخ الا سلام ابن تیمہ نے الجواب الصحیح میں لکھا ہے کہ لغت عرب توفی کے معنی استیفا اور قبض کے آئے ہیں اور یہ نیند کی صورت میں ہو سکتا ہے اور موت کی صورت میں بھی۔ اور یہ توفی الروح مع البدب جمیعا کے لیے بی آتا ہے۔ اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں حضرت ابن عباس سے بھی اصح روایت منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) آّسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔ روح) پھر قریب قیامت کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ السلام کا نزول اور دجال کو باب لد میں قتل کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے اور امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ (ابن کثیر) تخصیص) آج تک کوئی مسلمان اس کا قاتل نہیں ہوا کہ عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) مر گئے ہیں اور دوبارہ آسمان سے نزول نہیں فرمائیں گے۔ (وحیدی) اور آنحضرت ﷺ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم۔ کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے وفات نہیں پائی اور وہ لوٹ کر آئیں گے۔ (ابن کثیر، ابن جریر) بقیہ بحث کے لیے دیکھئے۔ (النسا آیت 58)