وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا ۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ
بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبروں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا سو وہ ان کے پاس روشن دلائل لے کرآئے پھر ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جوجرائم کے مرتکب ہوئے اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ لازم تھا (١١)۔
ف 1 اوپر مبداور معاد کو براہین و دلائل سے ثابت کرنے کے بعد اب اس آیت میں اصل ثالث یعنی نبوت کو ثابت کیا ہے یعنی آپﷺ بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح اللہ کے پیغمبر ہیں، جیسے ان کے مخالفین سے انتقام لیا گیا۔ اسی طرح آپﷺ کے مخالفین سے بھی بدلہ لیا جائے گا۔ نیز اس آیت میں آنحضرت ﷺکو تسلی دی ہے اور اہل ایمان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہے اور وہ ہمیشہ مغلوب نہیں رہیں گے بلکہ ایک نہ ایک دن کو غلبہ نصیب ہوگا۔ یہاں حَقًّاخبر مقدم اور’’ نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ‘‘ اسم کان ہے اور الْمُؤْمِنِينَ میں پیغمبر، ان کے صحابہ اور ان کے بعد امت کے تمام مومنین شامل ہیں۔ بعض نے’’ حَقًّا‘‘پر وقف تام کیا ہے اور كَانَ میں ضمیر کا مرجع انتقام قرار دیا ہے اورİ عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَĬ کو جملہ مستانفہ مانا ہے۔ واللہ اعلم