أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
کیا تم لوگ خلاف وضع فطری کے مرتکب ہوتے ہو، دن دہاڑے ڈاکے مارتے ہو اور مجلسوں میں علانیہ برائیوں کے مرتکب ہوتے ہو؟ پس اس کی قوم کا اس کے سوا کچھ جواب نہ تھا کہ اگر تو سچا ہے تو اللہ کا عذاب لا دکھا (١٠)
ف5۔ یعنی فحش اور بدکاری کے کام چھپ کر نہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا، ایک دوسرے کے سامنے، کرتے ہو۔ اسی کو سورۃ نمل میں یوں فرمایا :İ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَĬکیا تم اسی طرح بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو کہ آنکھوں سے (اسے ہوتا) دیکھ رہے ہوتے ہو“؟ (آیت 54) ف6۔ سورۃ اعراف میں ہے : İ وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوهُمْ مِنْ قَرْيَتِكُمْĬپھر ان کی قوم والوں نے کوئی جواب (ان باتوں کا) نہ دیا۔ یہی کہنے لگے کہ انہیں اپنی بستی سے نکال دو۔ (کذافی سورۃ نمل) اور یہاں ان کا جواب یہ نقل کیا گیا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو عذاب لے آئو۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے تو حضرت لوط ( علیہ السلام) کے سمجھانے پر انہوں نے بستی سے نکال دینے کی دھمکی دی ہو اور پھر تنگ آ کر عذاب کا مطالبہ کردیا ہو۔ یا ممکن ہے ترتیب اس کے برعکس ہو۔ واللہ اعلم۔ (شوکانی)