وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ہم نے انسان کو بتاکید حکم دیا کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوککرے لیکن وہ اگر تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے شریک ہونے کا تجھے کچھ بھی علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کر تم سب کو میری طرف لوٹ کرآنا ہے پھر میں تمہیں ان کاموں کی حقیقت سے آگاہ کروں گا جو تم کیا کرتے تھے (٢)۔
3۔ یعنی ان کی خدمت کرے اور ان سے عاجزی سے پیش آئے۔ (دیکھئے سورۃ اسرا آیت 23۔24) 4۔” یعنی جس کے شریک ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔“ بھلا شرک پر دلیل کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ تو وہم پرستی اور اندھی تقلید سے وجود میں آیا ہے۔5۔ اس لئے کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ ماں باپ ہوں یا کوئی اور سب کی اطاعت اس صورت میں ہے جب ان کا حکم اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق ہو یا کم از کم اس کے خلاف نہ ہو۔ مروی ہے کہ یہ آیت حضرت سعد (رض) بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کی والدہ نے کہا : ” کیا اللہ نے تمہیں ماں سے نیک سلوک کرنے کا حکم نہیں دیا؟ اللہ کی قسم جب تک تم محمد (ﷺ) سے انکار نہ کرو گے میں نہ کچھ کھائوں گی اور نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مر جائوں۔“ چنانچہ اس نے مرن برت رکھ لیا۔ اس کے رشتہ دار جب اسے کھلانا چاہتے تو اس کا منہ کھول کر زبردستی کھلاتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) 6۔ یعنی بتلائوں گا کہ تمہارے اعمال کہاں تک نیک تھے اور کہاں تک برے؟ پھر ہر ایک اعمال کی جزا اور بداعمال کی سزا دوں گا۔