فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
چنانچہ اس کے رب نے اس ( مریم) کو بطریق احسن قبول کیا اور اسے بہترین طریقے سے پروان چڑھایا۔ اور زکریا اس کے سرپرست بنے۔ ( ١١) جب بھی زکریا ان کے پاس ان کی عبادت گاہ میں جاتے، ان کے پاس کوئی رزق پاتے، انہوں نے پوچھا : مریم ! تمہارے پاس یہ چیزیں کہاں سے آئیں؟ وہ بولیں : اللہ کے پاس سے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے
ف 3 ابن اسحاق نے اس کی وجہ حضرت مریم (علیھا السلام) کی یتیمی بیان کی ہے اور دوسرے مؤ رخین نے بنی اسرئیل میں قحط سالی کو سبب کفالت قرار دیا ہے۔ حضرت زکرریا ( علیہ السلام) مریم (علیھا السلام) کے خالو تھے اور بعض نے بہنوئی بھی لکھا ہے۔ چنانچہ حدیث معراج میں آنحضرت( ﷺ) نے یحیی ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو ابنا خالتہ قرار دیا ہے لیکن شار حین نے اسے مجاز پر محمول کیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 4 لفظ محراب سے مرادمعروف محراب نہیں ہے جو مسجدوں میں امام کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس کے معنی تو اس چھوٹے سے کمرہ کے ہیں جو تنہائی کے لیے بنایا جاتا ہے یہود اور نصاریٰ عبادت خانہ سے الگ کچھ بلندی پر یہ محراب بناتے تھے جس میں کنیسہ کے مجاور رہتے تھے۔ ف 5 اسلوب کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ رزق خرق عادت کے طو پر حضرت مریم (علیھا السلام) کے پاس پہنچ رہا تھا۔ اکثر تابعین (رح) سے منقول ہے کہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) جب بھی مریم (علیھا السلام) کے حجرہ میں جاتے تو ان کے ہاں بے موسم کے تازہ پھل پاتے۔ اور رزق سے علم مرادلینا صحیح نہیں ہے۔ (ابن جریر۔ ابن کثیر )