سورة البقرة - آیت 25

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(لیکن ہاں) جن لوگوں نے (انکار و سرکشی کی جگ) ایمان کی راہ اختیار کی، اور ان کے کام بھی اچھے ہوئے، تو ان کے لیے (آگ کی جگہ ابدی راحت کے) باغوں کی بشارت ہے۔ (سرسبزوشاداب باغ) جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ( اور اس لیے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں) جب کبھی ان باغوں کا کوئی پھل ان کے حصے میں آئے گا (یعنی بہشتی زندگی کی کوئی نعمت ان کے حصے میں آئے گی) تو بول اٹھیں گے، یہ تو وہ نعمت ہے جو پہلے ہمیں دی جاچکی ہے (یعنی نیک عملی کا وہاجر ہے جس کے ملنے کی ہمیں دنیا میں خبر دی جا چکی ہے) اور (یہ اس لیے کہیں گے کہ) باہم دگر ملتی جلتی ہوئی چیزیں ان کے سامنے آئیں گی (یعنی جیسا کچھ ان کا عمل تھا، ٹھیک ویسی ہی بہشتی زندگی کی نعمت بھی ہوگی) علاوہ بریں ان کے لیے نیک اور پارسا بیویاں ہوں گی اور ان کی راحت ہمیشگی کی راحت ہوگی کہ اسے کبھی زوال نہیں !

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7: کفار کو تہدید کے بعد اب ترغیب دی جا رہی ہے اور قرآن میں عمو ما یہ دونوں اسلوب ہیں۔ اس اسلوب بیان کی وجہ سے اسے المثانی کہا جاتا ہے ( ابن کثیر) ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تصریح سے مقصد یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے عمل صالح بھی ضروری ہے۔ کسی عمل کے صالح ہونے کے یہ معنی ہیں کہ خلوص نیت کے ساتھ ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ سنت کی مخالفت سے نیک عمل بدعت بن جاتا ہے اور عدم خلوص سے نفاق پیدا ہوتا ہے۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں اسلام اور احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ (دیکھئے حاشیہ آیت 112) نفاق اور بدعت سے عمل برباد ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 : دنیا کے میووں کے ہم صورت ہوں گے یا آپس میں ہم شکل ہوں گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے نام تو دنیا والے ہی ہوں گے مگر ان کی حقیقت سے آگاہی ناممکن ہے حدیث میں ہے (مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ)۔ نہ ان کو آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا۔ ( ابن کثیر) ف 9 : یعنی جنتی عورتیں ہر قسم کی ظاہر اور باطنی آلائشوں سے پاک و صاف ہوں گی۔ (ابن کثیر) ف 10: یہاں خلود کے معنی ہمیشگی کے ہیں اور یہی اس حققی معنی ہیں۔ (قرطبی)