سورة النمل - آیت 82

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت ان پر آپہنچے گا یعنی قیامت قریب ہوگی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جوان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں کا یقین نہ کرتے تھے (١٤)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

6۔ ” تکلمھم“ کے معنی بات کرنا اور زخمی کرنا، دونوں ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ وہ جانور مومن سے بات کریگا اور کافر کو زخمی کریگا حافظ ابن کثیر (رح) نے اس … کو پسند کیا ہے۔ واللہ اعلم (شوکانی، ابن کثیر) 7۔ حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہوگا جب لوگ امر بالمعروف او نہی عن المنکر چھوڑ دینگے۔ یہ جانور کیسا ہوگا۔ کہاں نکلے گا۔ کب نکلے گا اور نکل کر کیا کریگا؟ اس بارے میں متعدد احادیث و آثار مروی ہیں جن میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کی احادیث مذکور ہیں۔ مگر یہ بات تو قطعی طور پر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ” خروج وأبۃ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں حضرت حذیفہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کی اس نشانیاں شمار فرمائیں جن میں ایک ” خروج دابہ“ بھی تھی۔ اس طرح صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نیک اعمال کی طرف تیز تیز قدم اٹھائو قبل اس کے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو، دجال ظاہر ہو، اور ” خروج دابہ“ ہو۔ (شوکانی، ابن کثیر) حافظ ابن کثیر (رح) نے اور بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” قیامت سے پہلے صفا پہاڑ مکے کا پھٹے گا اور اس میں سے ایک جانور نکلے گا لوگوں سے باتیں کریگا کہ اب قیامت نزدیک ہے۔ ایمان والوں اور چھپے منکروں کو جدا جدا کر دے گا نشان دے کر۔“ (موضح)