بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ
حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گڈمڈ ہوگیا ہے بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں
1۔ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ہار کر عاجز آگیا، چنانچہ کبھی وہ اس میں شک کرتے ہیں اور کبھی اندھے یعنی قطعی منکر ہوتے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رح) نے اپنے ترجمہ اور حاشیہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ (دیکھئے موضح) شاہ ولی اللہ نے یوں ترجمہ کیا ہے : بلکہ پے در پے متوجہ شد علم ایشاں درباب آخرت یعنی تاآنکہ منقطع گشت۔ (فتح الرحمن) امام رازی (رح) فرماتے ہیں : اس کا مفہوم یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم تو کمال اور انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ یعنی آخرت کے ثبوت پر ان کے سامنے اتنے دلائل موجود ہیں کہ ان سے کامل درجہ کا یقین حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ لوگ پھر بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص اس قدر واضح حقیقت پر بھی یقین نہیں کرسکتا اور اس سے سراسر غافل ہے وہ غیب جیسی مخفی حقیقت کا ادراک کیسے کرسکتا ہے یا یہ بات ان کے متعلق بطور تہکم کہی گئی ہے جیسے کسی اجہل شخص سے کہا جائے کہ میاں تم بڑے عالم نظر آتے ہو۔ (کبیر)