فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
توسلیمان اس کی بات پر مسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور کہنے لگا اے میرے رب مجھے اس بات پر قائم کر کہ میں تیرے اس احسان کاشکرادا کرتا رہوں ہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ کیے ہیں اور یہ کہ میں ایسے نیک کام کرتا رہوں جو تجھے پسند ہوں اور مجھ کو اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرمالے
ف4۔ اگر بالفرض ” نَمْلَةٌ “ سے مراد کوئی انسان ہوتا تو اس میں متعجبانہ ہنسی کی کوئی بات نہ تھی اور نہ یہ کوئی ایسا واقعہ تھا جس کے متعلق حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے احساس شکر گزاری کی اہمیت واضح کی جاتی۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے یہ اظہار تشکر اس بات پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک حقیر جانور کی بولی سمجھنے کا علم عطا فرمایا جو ان کے سوا اور کسی کو حاصل نہ تھا۔ ف5۔ یہاں ” صَّالِحِينَ “ سے وہ کامل صالح لوگ مراد ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی معصیت کا خیال تک نہیں آ پاتا۔ (کبیر)