سورة الشعراء - آیت 227

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

البتہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح کیے اللہ کے ذکر میں زیادہ سے زیادہ لگے رہے اور ظلم کا بدلہ لینے میں فتح مندی حاصل کی، بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا تھا اور وہ مظلوم تھے (سو انکا حال ایسا نہیں) اور معلوم کرلیں گے ظلم کرنے والے کس کروٹ الٹتے ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

1۔ یعنی جن شعراء کی مذمت کی گئی ہے ان سے ایسے شعرا مستثنیٰ ہیں جو مومن ہوں، نیک کام کرنے والے ہوں اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے ہوں اور اپنے کلام سے ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کا کام لیتے ہوں جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت حسان (رض) ثابت عبد اللہ (رض) بن رواحہ اور کعب (رض) بن مالک اور دیگر صحابہ (رض) کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، چنانچہ ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان (رض) کے متعلق فرمایا : اللھم ایدہ بروح القدس۔ اے اللہ ! جبریل ( علیہ السلام) کے ذریعہ اس کی تائید فرما۔ بعض احادیث میں جو شعر کی مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہ شعر ہے جو لغویت، بے حیائی اور فحش کلامی پر مبنی ہو۔ ایک حدیث ہے :” شعر کی حیثیت کلام کی ہے اس کی اچھائی کلام کی اچھائی کی طرح ہے اور اس کی برائی کلام کی برائی کی طرح۔ (شوکانی۔ قرطبی) 2۔ یعنی ان کا انجام کیا ہونے والا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔