زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
انسان کے لیے مرد و عورت کے رشتہ میں، اولاد میں، چاندی سونے کے ذخیروں میں، چنے ہوئے گھوروں میں، مویشی میں اور کھیتی باری میں دل کا اٹکاؤ اور خوش نمائی رکھ دی گئی ہے۔ (اس لیے قدرتی طور پر تمہیں بھی ان چیزوں کی خواہش ہوگی) لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی زندگی کا فائدہ اٹھانا ہے اور بہتر ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے
ف 3 اشھوات۔ یہ شہوت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں (کسی مرغوب چیز کی طرف نفس کا کھینچ جانا) یہاں کا الشہوات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبعیت کو مرغوب ہیں اور من النساء میں من بیانیہ ہے یعنی وہ چیزیں یہ ہیں۔ القناطیر کا واحد قنطار ہے۔ اس کی مقدار میں مختلف اقوال ہیں مگر سب کا حاصل یہ ہے کہ مال کثیر کو قنطار کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ہماری زبان میں اس کا ترجمہ خزانے ہوسکتا ہے اور متاع اس سامان کو کہا جاتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ مزے کا لفظ اس کا تعبیری ترجمہ ہے۔ حاصل یہ کہ انسان ان چیزوں کی محبت میں پھنس کر خدا اور اس کے دین سے غافل ہوجائے اور انہیں تفاخر اور زینت کا ذریعہ سمجھے اور غرور وتکبر پر اتر آئے تو یہ تما چیزیں مذموم۔ ورنہ اگر ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت خیال کرتے ہوئے ذریعہ آخرت بنایا جائے اور شریعت کی حدود میں رہ کر ان سے فائدہ اٹھا یا جائے تو یہ مذموم اور مبغوض نہیں بلکہ نہایت مرغوب اور محمود ہیں۔ اصل چیز نیت اور عمل ہے۔ اس لیے حدیث میں ایک طرف تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ ہے کہ میرے بعد مردوں کے لیے کوئی ضرر رساں فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ بخاری) اور دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع عورت ہے۔ اور یہ کہ دنیا میں میرے لیے عورت اور خوشبو پسندید بنادی گئی ہیں۔ بخاری وغیرہ یہی حال باقی تمام نعمتوں کا ہے۔ آیت کے آخر میں ان کو دنیاوی زندگی کا سامان قرار دیکر دنیاوی زندگی میں زہد اور آخرت میں رغبت پر زور دیا ہے۔ (ماخوذازابن کثیر وشوکانی )